زبیر قیصر
غزل
زلف ریشم ہے تو چہرہ اُجالوں جیسا
وہ تو لگتا ہےتروتازہ گلابوں جیسا
اُس کی باتیں تو ہیں گنگھور گھٹاوں جیسی
اُس کا مخمور سا لہجہ ہے شرابوں جیسا
خود ہی کُھلتا ہے مگر مجھ پہ بھی تھوڑا تھوڑا
اتنا مشکل ہے کہ لگتا ہے نصابوں جیسا
اُس کے دل میں بھی کوئی بات رہی ہوگی
مجھے سے روٹھے تو وہ لگتا ہے خرابوں جیسا
جاگنا شب کا مجھے اُس نے سکھایا قیصر
رتجگوں میں بھی اُترتا ہے جو خوابوں جیسا
غزل
کچھ اس طرح وہ گھری ہوئی تھی سہیلوں میں
گلاب جیسے کھلا ہوا ہو چنبیلیوں میں
کوئی کیا سمجھے میں خود بھی اُس کو سمجھ نہ پایا
وہ بات کرتی ہے مجھ سے اکثر پہلیوں میں
میں سوچتا ہوں وہ میرے گھر میں رہے گی کیسے
رہی ہو اب تک جو اونچی اونچی حویلیوں میں
خدا نے جانے وہ کس کے ماتھے پہ لکھ دیا ہے
جو نام تُو نے لکھا ہوا ہے ہتھیلیوں میں
میں غیر کی سازشوں سے قیصر عبث ڈرا تھا
تھے اپنے دشمن چھپے ہوئے یار بیلیوں میں
غزل
مشکل رستہ چلتے چلتے تھک جاتے ہیں
ہم تو تجھ تک آتے آتے تھک جاتے ہیں
دھیرے دھیرے دن، راتوں میں کھوجاتے ہیں
یاد تجھے ہم کرتے کرتے تھک جاتے ہیں
رہتے رہتے رہے جاتی ہے دل میں حسرت
ارماں پورے ہوتے ہوتے تھک جاتے ہیں
ڈھلتے ڈھلتے ڈھل جاتا ہے وقت کا سورج
عمر کے پنچھی اُڑتے اُڑتے تھک جاتے ہیں
ہوتے ہوتے ہوجاتی ہے قیصر صلح
خود سے جب ہم لڑتے لڑتے تھک جاتے ہیں
غزل
چلو پھر سے بہاروں کی فضاتخلیق کرتے ہیں
نیا گلشن، نئی بادِ صبا تخلیق کرتے ہیں
ہم اپنے دامنِ دل کے سبھی کانٹوں کو چن چن کر
چمن میں اک نئی طرزِ ادا تخلیق کرتے ہیں
اندھیرے رت جگوں میں ہیں بلا کی وحشتیں رقصاں
خیالوں میں اُسے لا کر ضیاتخلیق کرتے ہیں
وفاوں کے نصابوں میں ہوئی ترمیم اب لازم
جنوں بھی اگلی نسلوں کا نیاتخلیق کرتے ہیں
محبت غم کے نیلے موسموں میں قید ہے کب سے
ہم اپنے زرد ہونٹوں پردُعا تخلیق کرتے ہیں
زبیر ہم کو مسرت کی فضائیں مار ڈالیں گی
اذیت کے لیے کوئی سزا تخلیق کرتے ہیں
غزل
دُعاوں میں اثر ہوگا ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے
مقدر اوج پر ہوگا ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے
ہمیں منزل ملے گی یا کہ رستوں میں ہی بھٹکیں گے
کوئی تازہ سفر ہوگا ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے
اُسے احساس ہونا ہے میری بے لوث چاہت کا
مگر کب باخبر ہوگا ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے
اُسے بھی چھاننی ہوگی ابھی تو خاک صحر ا کی
وہ کب تک دربدر ہوگا ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے
اُدھر سارا زمانہ ہے اِدھر قیصر اکیلا ہے
اُدھر سے وہ اِدھر ہوگا ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے
غزل
بھرے میلے میں تنہا وہ کھڑی اچھی لگی ہم کو
بظاہر عام سی لڑکی بڑی اچھی لگی ہم کو
ترا وہ مسکرانا، پھول جھڑنا تیری باتوں سے
وہ سُچے موتیوں کی اک لڑی اچھی لگی ہم کو
’’خدا بہتر کرے گاسب‘‘ دلاسے میں ترا کہنا
تب اپنی آنکھ سے بہتی جھڑی اچھی لگی ہم کو
اسی سے دن ہوا روشن، اسی سے شب مہک اُٹھی
خیالِ یار کی اک پھلجڑی اچھی لگی ہم کو
مرے کنگن کے بدلے میں گھڑی جو اُس نے بھیجی ہے
محبت کی حسیں وہ ہتھکڑی اچھی لگی ہم کو
بہت بھایا ہمیں قیصر اچانک اُس کا آجانا
وصالِ یار کی پہلی گھڑی اچھی لگی ہم کو