Friday, 20 April 2012

باقر عباس فائیز Baqar Abbas Faez

باقر عباس فائیز

باقر عباس فائیز کا مختصر سا تعارف


نام:                   سید باقر عباس رضوی
تعلیم:                 ایسوسی ایٹ میکنیکل انجیئر
                        کالج آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی
                        لاہور۔
سکونت:              کراچی
سروس:              پاکستان ریلوے
                       (1967 سےمارچ1976)
                       (سب انجینئر مکینکل ڈیزل)
                       سعودی ریلوے، 1976 سے اب تک (36 سال)جاری ہے
                      (پروکیورمنٹ انچارج)
کھیل:               کالج اور ریلوے میں تمام کھیل کھیلے ماسوائے شطرنج، گالف    
                      کے، خاص طور پر ہاکی اور ٹیبل ٹینس بہت زیادہ کھیلا۔   
ادب:                ادبی شوق 1969 سے، لاہور کے مزاحیہ رسالے’’چاند‘‘ میں کچھ
                      عرصہ تک گانوں کی پلٹ اور مزاحیہ لطیفے لکھے۔
شاعری:            باقاعدہ شاعری 1979 سے لکھنا شروع کی۔ 2005 میں دمام کی
                       تنظیم بزم شعر و سخن، سعودی عرب میں شمولیت کی۔
                       بطور رابطہ سیکرٹری، مزاحیہ شاعری بھی لکھتے ہیں۔
تخلص:             فائیز، (باقر عباس فائیز)
شاعر:              غالب، میرتقی میر، فیض احمد فیض، احمد فراز، دلاور فگار
                       ساغر خیامی
موسیقی:            پرانے پاکستان اور ہندوستانی نغمے سننے کا شوق، کبھی کبھی 
                      گنگنانے کا بھی شوق ہے۔
                      پیانو بجانے کا بھی تھوڑا بہت شوق ہے۔


باقر عباس فائیز کی شاعری


غزل
رہ عشق میں جاں لٹانے کی باتیں
یہ اب ہیں پُرانے زمانے کی باتیں
ہوئی برق سے دوستی جس گھڑی سے 
بھُلادیں سبھی آشیانے کی باتیں
مجھے راہ میں چھوڑ کر چل دیئے وہ
جو کرتے تھے منزل کو پانے کی باتیں
وہ آکاش کی سیر کرنے کے قصّے
وہ آنچل پہ تارے سجانے کی باتیں
کرو بس ہمارے تمہارے ملن کی
نہ چھیڑو یہ سارے زمانے کی باتیں
رعایا کو جب لوٹنا ہو تو کیجیے
خلفیے کے خالی خزانے کی باتیں
جسے دیکھو کمزور تم سے بہت ہے
کرو اس سے پنجہ لڑانے کی باتیں
فائیز تو جاں کو گنوا ہی چکے ہیں
نہ پھر سے کرو آزمانے کی باتیں


غزل 
ٹوٹی تھی میری نیند اگر تم کو کیا خبر
بجتے رہے ہوا سے جو در تم کو کیا خبر
غیروں کا ہاتھ تھام کے ایسے گئے کہ میں
بھولا ہوا ہوں اپنا ہی گھر تم کو کیا خبر
گلشن جو کبھی تھا مرا ویران ہوگیا
دشوار زیست کا ہے سفر تم کو کیا خبر
دل جانتا ہے دور بہت ہم سے ہو مگر
کرتے ہیں یاد شام و سحر تم کو کیا خبر
اُترے گا جب نشہ تو سنبھل نہ سکو گے پھر
پائو گے تنہا خود کو مگر تم کو کیاخبر
نکلا ہوں شہر سے میں وفا کی تلاش میں
ہوگا کہاں کہاں سے گزر تم کو کیا خبر
تم کو تو راس آگئی راحت کی زندگی
فائیز ہوا ہے خاک بسر تم کو کیا خبر


غزل
قصہ کسی نے چھیڑا تھا کیا کوہ طور کا
کیوں دل ایسا ہوگیا میرے حضور کا
کہہ دو ماہ و نجوم سے نکلیں نہیں ابھی
یہ وقت بام پر ہے کسی کے ظہور کا
کیسی تھکن کہاں کی تھکن بے خبر تھے ہم
راتوں میں چل رہے تھے کہ رستہ تھا دور کا
دیوانگی کا کام ہے یہ ہوش کا نہیں
اس عشق میں تو کام نہیں ہے شعور کا
اس کو بتائے ہم نے خدوخال جب ترے
واعظ نے تذکرہ کیا جنت کی حور کا
خوش فہمیوں میں مبتلا اتنا نہیں رہو
ہوتا سدا ہے سر میاں نیچا غرور کا
گزرا تھا مہ کدے سے فقط اور دیکھیئے
فائیز تو جاننے لگا مطلب سرور کا

غزل
ہمیں تو دل تمہارا چاہیے، بس
کہ جینے کا سہارا چاہیے بس
یہ دل کی نائو بھی پاگل ہے کتنی
اسے طوفاں کا دھارا چاہیے، بس
تھکا ڈالا ہے موج دل نے اتنا
طبیعت کو کنارہ چاہیے، بس
جلاسکتا ہے دل یہ ساری دُنیا
اسے تو اک شرارہ چاہیے، بس
نگائوں سے سما جائیجودل میں
کوئی ایسا نظارہ چاہیے، بس
مرے مالک ہے اتنی عرض مری
زمیں پر اک ستارہ چاہیے، بس
میں قرباں جان بھی کردوں گا فائیز
تمہارا اک اشارہ چاہیے، بس

غزل
جب کرن آفتاب ہوتی ہے
روشنی بے حساب ہوتی ہے
رنگ جینے کے ماند پڑتے ہیں
جب طبیعت خراب ہوتی ہے
مل جو جائے وفا تو نعمت ہے
نہ ملے تو عذاب ہوتی ہے
جسم و جاں کے وسیع سمندر میں
دل کی ہستی حباب ہوتی ہے
جاں بلب تشنہ لب مسافر کو
ہر روش اک سراب ہوتی ہے
جب شرافت ہو خون میں شامل
تب نظر با حجاب ہوتی ہے
عمر بھر ہوش پھر نہیں رہتا
گر پرانی شراب ہوتی ہے
رات بھر کیوں جگائے رکھتی ہے
ایسی خواہش جو خواب ہوتی ہے
اس کی نظریں سخن کی نظریں ہیں
وہ سراپا خطاب ہوتی ہے
جب بھی پڑھتا ہوں میں اسے فائیز
وہ کھلی اک کتاب ہوتی ہے
غزل
کیسا عجیب شہر کا منظر ہے کیا کہوں
ہر شخص ہاتھ میں لئے پتھر ہے کیا کہوں
ہر سمت لُوٹ مار کا بازار گرم ہے
سیدھا نشانے پر ہی میرا گھر ہے کیا کہوں
شاید کہ مرے خواب کی تعبیر ہی نہیں
کتنا غریب میرا مقدر ہے کیا کہوں
گزری رفاقتوں کا یہ اچھا انعام ہے
وہ آج ہاتھ میں لئے خنجر ہے کیا کہوں
ارمان دل میں ہائے سلگ کر ہی رہ گئے
شعلوں میں جل چکا جو مرا گھر ہے کیا کہوں
کیسے قفس سے نکلوں ہے تاریک اس قدر
فائیز دکھائی دیتا نہیں در ہے کیا کہوں


غزل
شہر وفا میں حسن کا بازار دیکھنا
کتنے ہیں ایک دل کے خریدار دیکھنا
نظریں بتائیں عشق کی باتیں تو اور بات
خود سے مگر نہ کیجیو اظہار دیکھنا
تم ہاتھ مرا تھام کے چلنا نہ راہ میں
باتیں کریں گے شہر میں اغیار دیکھنا
اپنا خیال رکھنا ہماری قسم تمہیں
ہونا نہ اپنے آپ سے بیزار دیکھنا
نادم نہ ہونے پائیں وہ اپنے سلوک پر
رکھنا خیال اے دلِ بیمار دیکھنا
جانا بدل کے وقت کو ہرروز اس طرف
اک دن ضرور ہوئیگا دیدار دیکھنا
وہ جن کو رتی بھر بھی ہمارا نہیں خیال
فائیز انہی کے ہم ہیں طلبگار دیکھنا


غزل 
ہے التجا یہ تم سے پہلا سا پیار دے دو
کھوئے ہوئے سرُوں کو نغمے ہزار دے دو
اک بار پھر سے آکر سیراب مجھ کو کردو
برسات اُلفتوں کی پھر بے شمار دے دو
بھولا نہیں ہوں اب تک منظر وہ قربتوں کے
پھر سے سجادو گلشن مہکی بہار دے دو
پھر تا ہوں مضطرب میں تھمتے نہیں ہیں آنسو
بے چین کب سے دل ہے اس کو قرار دے دو
ہے عشق جرم میرا، اُلفت میں قید کرلو
بانہوں کا اپنی مجھ کو ایسا حصار دے دو
موسم ہزار بدلیں، تم جام بھرتے جائو
میں ہوش میں نہ آئوں ایسا خمار دے دو
مالا جپے یہ ہر دم بس نام کی تمہارے
فائیز کی زندگی کو وہ اعتبار دے دو
غزل
صحرائے زندگی میں ہوں راحت نہیں نصیب
ہم کو تھا جس پہ ناز وہ چاہت نہیں نصیب
ویران زندگی ہے خزاں کا سماں ہے اب
مقدور میں بہار کی صورت نہیں نصیب
نقشِ قدم پہ ان کے پڑی ہے وفا کی لاش
ہے ایسی بے کسی میں کہ تربت نہیں نصیب
ان کی نگاہِ ناز کے گھائل ہیں بے شمار
لیکن ہمیں تو یہ بھی کرامت نہیں نصیب
یوں فکرِ روزگار میں کٹتے ہیں روز و شب
مل پائیں خود سے اتنی بھی مہلت نہیں نصیب
ہمراہ جن کی چاہ کے سائے تھے روز و شب
اب ان کو یاد کرنے کی فرصت نہیں نصیب
ارمان دل کے تیرگی کی زد میں آگئے
اب تو نمودِسحر کی صورت نہیں نصیب
ناکام حسرتوں کا جنازہ اُٹھائیں خود
اپنی بقا کے واسطے قدرت نہیں نصیب
اک ہم کہ ان کی چاہ میں جیون لٹادیا
لیکن انہیں تو پل کی فراغت نہیں نصیب
فائیز اُٹھا کے ہاتھ کرتا ہے یہ دُعا
ہوں شاد وہ بھی جن کو محبت نہیں نصیب

No comments:

Post a Comment